نہ ہم کو یاد کرو اور نہ یاد آؤ ہمیں
عجیب حکم ہے کہتے ہیں بھول جاؤ ہمیں
تمہارے چہرے تو کچھ روشنی میں آ جاؤ
جو ہو سکے تو ذرا دیر تک جلاؤ ہمیں
ہمیں عزیز ہو کتنے یہ جاننے کے لئے
ہماری جان بھی حاضر ہے آزماؤ ہمیں
کھلیں گے کتنے ہی اسرار لفظ لفظ مگر
کبھی تو تم بھی اکیلے میں گنگناؤ ہمیں
ضرورتوں کے سبب ہم بھی بک گئے محورؔ
نظر سے اپنی گرے ہیں ذرا اٹھاؤ ہمیں
غزل
نہ ہم کو یاد کرو اور نہ یاد آؤ ہمیں
محور نوری