EN हिंदी
نہ ہے اس کو مجھ سے غفلت نہ وہ ذمے دار کم ہے | شیح شیری
na hai usko mujhse ghaflat na wo zimmedar kam hai

غزل

نہ ہے اس کو مجھ سے غفلت نہ وہ ذمے دار کم ہے

شفا کجگاؤنوی

;

نہ ہے اس کو مجھ سے غفلت نہ وہ ذمے دار کم ہے
پہ الگ ہے اس کی فطرت وہ وفا شعار کم ہے

مری حسرتیں مٹیں گی مرے خواب ہوں گے پورے
مجھے اپنے اس یقیں پر ذرا اعتبار کم ہے

نہ بڑھائے اور دوری کوئی آنے والا موسم
چلو فاصلے مٹا لیں کہ ابھی درار کم ہے

یہ تم ہی پہ منحصر ہے کہ تم آؤ یا نہ آؤ
میں بھلا یہ کیسے کہہ دوں مجھے انتظار کم ہے

یہی چاہتے تھے ہم بھی کہ نہ راز دل عیاں ہو
مگر اپنے آنسوؤں پر ہمیں اختیار کم ہے

وہ اٹھا تھا ایک طوفاں جو مچا گیا تباہی
ابھی آندھیاں تھمی ہیں تو ابھی غبار کم ہے

کہیں کھو گئے تصور جو بکھر گیا تخیل
تو شفاؔ یہ کیسے کہہ دے کہ وہ بے قرار کم ہے