نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے
سکوں ہی سکوں ہے خوشی ہی خوشی ہے
ترا غم سلامت مجھے کیا کمی ہے
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے
ارے او جفاؤں پہ چپ رہنے والو
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے
مرے راہبر مجھ کو گمراہ نہ کر دے
سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے
خمارؔ بلا نوش کہ تو اور توبہ
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے
غزل
نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
خمارؔ بارہ بنکوی