نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
تو اور آرایش خم کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
لاف تمکیں فریب سادہ دلی
ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز
ہوں گرفتار الفت صیاد
ورنہ باقی ہے طاقت پرواز
وہ بھی دن ہو کہ اس ستم گر سے
ناز کھینچوں بجائے حسرت ناز
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گلباز
اے ترا غمزہ یک قلم انگیز
اے ترا ظلم سر بہ سر انداز
تو ہوا جلوہ گر مبارک ہو
ریزش سجدۂ جبین نیاز
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تو غریب نواز
اسدؔ اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رند شاہد باز
غزل
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
مرزا غالب