نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایا
شرارت سے جی جس نے میرا جلایا
نہ بے چین ہو کوئی اب اس کی خاطر
مرا چاہنا جو نہ خاطر میں لایا
بہم دیکھ دو شخص ہو وہ بھی مضطر
اکیلا میں جس کے لیے تلملایا
پھرے جستجو میں نہ اب کوئی اس کی
مجھے جس نے گلیوں میں برسوں پھرایا
نہ بھولے سے یاد اب کرے کوئی اس کو
مرا یاد کرنا بھی جس نے بھلایا
نہ خوش ہو اب اس پاس بیٹھے سے کوئی
ہمیں کر کے آزردہ جس نے اٹھایا
خریدار پیدا نہ ہو کوئی اس کا
کہ دل بیچ کر ہم نے دکھ جس سے پایا
تحیر ہو دیکھ آئینہ اس کو جس نے
ہمیں کر کے حیراں نہ مکھڑا دکھایا
لگے لاگ اس سے کسی کی نہ یارب
ہماری لگی کو نہ جس نے بجھایا
کہوں داستاں میں گر اپنی اور اس کی
تو حیران ہو سن کے اپنا پرایا
کہ پہلے کی اظہار خود اس نے الفت
نہ آیا تو سو بار گھر سے بلایا
جتائیں وہ باتیں جنہیں سحر کہیے
دکھایا وہ عالم کہ وحشی بنایا
رکھی بے تکلف ملاقات چندے
بہ منت مجھے پاس پہروں بٹھایا
کسی کا نہ اک حرف خاطر میں گزرا
اسے گرچہ لوگوں نے کیا کیا پڑھایا
سو اب وہ جھلک تک دکھاتا نہیں ہے
گیا میں جو گھر سے تو در تک نہ آیا
لگاوٹ یہ کچھ کر کے پھر کیا غضب ہے
مرا لگ گیا دل تو پردہ لگایا
بہ تغییر بحر اور جرأتؔ غزل کہہ
کہ یہ طرفہ مضمون تو نے سنایا
غزل
نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایا
جرأت قلندر بخش