نہ فاصلوں میں خلش نہ راحت ہے قربتوں میں
میں جی رہا ہوں عجیب بے رنگ ساعتوں میں
تجھے غرض کیا کوئی بھی موضوع گفتگو ہو
ہر اک حقیقت بدل چکی جب حکایتوں میں
مری وفا کے سفر کی تکمیل ہو تو کیسے
ہے تیرا محور تری ادھوری محبتوں میں
کوئی تو میرے وجود کی سرحدیں بتائے
بھٹک رہا ہوں میں کب سے اپنی ہی وسعتوں میں
وہ ایک سایہ تھا عمر بھر کی تھکن کا حامل
وہ ایک سایہ جو کھو گیا ہے مسافتوں میں
میں زخم کھا کے بھی بد گماں ہو سکا نہ راشدؔ
عجیب رنگ خلوص تھا اس کی نفرتوں میں

غزل
نہ فاصلوں میں خلش نہ راحت ہے قربتوں میں
ممتاز راشد