نہ دن پہاڑ لگے اب نہ رات بھاری لگے
نہ آئے نیند تو آنکھوں کو کیا خماری لگے
خوشی نہیں تھی تو غم سے نباہ کر لیتے
کسی کے ساتھ طبیعت مگر ہماری لگے
کوئی نہ ہو کبھی احباب کے کرم کا شکار
مری طرح نہ کسی دل پہ زخم کاری لگے
ہمیں تڑپتا ہوا غم میں چھوڑنے والے
خدا کرے کہ تجھے زندگی ہماری لگے
نفس نفس ہمیں روز جزا سے بڑھ کر ہے
وہ شوق سے جئے جس کو حیات پیاری لگے
وہ مر نہ جائے تو پھر اور کیا کرے اے شکیبؔ
وجود اپنا جسے زندگی پہ بھاری لگے
غزل
نہ دن پہاڑ لگے اب نہ رات بھاری لگے
شکیب بنارسی