نہ دن ہی چین سے گزرا نہ کوئی رات مری
وہ سبز باغ دکھاتی رہی حیات مری
مرے وجود کو رہنے دے سنگ کی صورت
کسی نظر میں تو آئینہ ہوگی ذات مری
تجھے بھی دل میں فراغت سے میں سمو نہ سکوں
کچھ ایسی تنگ نہیں ہے یہ کائنات مری
کروں تو کون سا عنواں عطا کروں اس کو
بٹی ہوئی ہے کئی قسطوں میں حیات مری
مری شکست انا توڑ دے گی خود مجھ کو
سجا کے لوگ نکالیں گے جب برات مری
سمیٹتا ہوں میں ناکامیوں کو جب شائقؔ
مرا مذاق اڑاتی ہیں خواہشات مری
غزل
نہ دن ہی چین سے گزرا نہ کوئی رات مری
شائق مظفر پوری