نہ دیکھا جامۂ خود رفتگی اتار کے بھی
چلی گئیں تری یادیں مجھے پکار کے بھی
یہ زندگی ہے اسے تلخ ترش ہونا ہے
صعوبتوں کے ذرا دیکھ دن گزار کے بھی
حباب زیست نہ دست قضا سے ٹوٹ سکا
حیات باقی رہی قبر میں اتار کے بھی
ترے غرور کے ہے روبرو یہ خوش شکنی
جھکا کے سر نہ ہوئے پیش شہریار کے بھی
بدی نہ روکیں پہ نفرت تو کر ہی لیتے ہیں
مظاہرے ہیں یہ کچھ اپنے اختیار کے بھی
کبھی گلے بھی ملو آ کے شاخ گل کی طرح
ادا تو کر دیے حق ہم نے انتظار کے بھی
قبول و رد کے سبھی اختیار اس کے تھے
مگر میں خوش تھا تمنا کو اس پہ وار کے بھی
بہار ہو تو لہو میں اترتی ہے شاہدؔ
ہمیں تو چھو کے نہ گزرے یہ دن بہار کے بھی
غزل
نہ دیکھا جامۂ خود رفتگی اتار کے بھی
صدیق شاہد