نہ درمیاں نہ کہیں ابتدا میں آیا ہے
بدل کے بھیس مری انتہا میں آیا ہے
اسی کے روپ کا چرچا ہے اب فضاؤں میں
ہوا کے رخ کو پلٹ کر ہوا میں آیا ہے
کبھی جو تیز ہوئی لو تو جگمگا اٹھا
برہنہ تھا جو کبھی اب قبا میں آیا ہے
مجھے ہے پھول کی پتی سا اب بکھر جانا
وہ چھپ چھپا کے مری ہی ردا میں آیا ہے
اسیر زلف کو شاید یہیں رہائی ہے
پکارتا ہوں جسے وہ صدا میں آیا ہے
نگل گئی ہے تصور کی آنچ آنچ اسے
کوئی وجود کسی سانحہ میں آیا ہے
میں چھیڑتا ہوں سمندر کی دھن میں نغموں کو
وہی جو راگ دل مطربہ میں آیا ہے
اسی کے شعر سبھی اور اسی کے افسانے
اسی کی پیاس کا بادل گھٹا میں آیا ہے
غزل
نہ درمیاں نہ کہیں ابتدا میں آیا ہے
وشال کھلر