EN हिंदी
نہ چلمنوں کی حسیں سرسراہٹیں ہوں گی | شیح شیری
na chilmanon ki hasin sarsarahaTen hongi

غزل

نہ چلمنوں کی حسیں سرسراہٹیں ہوں گی

بیکل اتساہی

;

نہ چلمنوں کی حسیں سرسراہٹیں ہوں گی
نہ ہوں گے ہم تو کہاں جگمگاہٹیں ہوں گی

میں ایک بھنورا ترے باغ میں رہوں نہ رہوں
کسے نصیب مری گنگناہٹیں ہوں گی

کواڑ بند کرو تیرہ بختو سو جاؤ
گلی میں یوں ہی اجالوں کی آہٹیں ہوں گی

نہ پوچھ پائیں گے احوال بے بسی وہ بھی
مرے لبوں پہ اگر کپکپاہٹیں ہوں گی

لہو نچوڑ لو ممکن ہے کل بہار کے بعد
رگوں میں پھیلی ہوئی سنسناہٹیں ہوں گی

وہ دن بھی آئے گا بیکلؔ چمن کے پھولوں پر
بنام جرم و خطا مسکراہٹیں ہوں گی