نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے
بڑے وہ ہو کہ تم نے اچھا اچھا کر کے دن کاٹے
اکیلے کیا تمہیں نے سختیاں جھیلیں جدائی کی
نہیں ہم نے بھی پتھر کا کلیجا کر کے دن کاٹے
بتا مجھ کو طریقہ اے شب غم سال کٹنے کا
کوئی بارہ مہینے تیس دن کیا کر کے دن کاٹے
جسے اپنا سمجھتے تھے وہی دل ہو گیا ان کا
کوئی دنیا میں اب کس کا بھروسا کر کے دن کاٹے
قضا بھی آ گئی لیکن نہ آنا تھا نہ آئے وہ
یہ میں نے عمر بھر کس کی تمنا کر کے دن کاٹے
تمہارا کیا کھلے بندوں رہے چاہے جسے دیکھا
کمال اس نے کیا مضطرؔ کہ پردا کر کے دن کاٹے

غزل
نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے
مضطر خیرآبادی