EN हिंदी
نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے | شیح شیری
na bulwaya na aae roz wada kar ke din kaTe

غزل

نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے

مضطر خیرآبادی

;

نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے
بڑے وہ ہو کہ تم نے اچھا اچھا کر کے دن کاٹے

اکیلے کیا تمہیں نے سختیاں جھیلیں جدائی کی
نہیں ہم نے بھی پتھر کا کلیجا کر کے دن کاٹے

بتا مجھ کو طریقہ اے شب غم سال کٹنے کا
کوئی بارہ مہینے تیس دن کیا کر کے دن کاٹے

جسے اپنا سمجھتے تھے وہی دل ہو گیا ان کا
کوئی دنیا میں اب کس کا بھروسا کر کے دن کاٹے

قضا بھی آ گئی لیکن نہ آنا تھا نہ آئے وہ
یہ میں نے عمر بھر کس کی تمنا کر کے دن کاٹے

تمہارا کیا کھلے بندوں رہے چاہے جسے دیکھا
کمال اس نے کیا مضطرؔ کہ پردا کر کے دن کاٹے