EN हिंदी
نہ اپنا باقی یہ تن رہے گا نہ تن میں تاب و تواں رہے گی | شیح شیری
na apna baqi ye tan rahega na tan mein tab o tawan rahegi

غزل

نہ اپنا باقی یہ تن رہے گا نہ تن میں تاب و تواں رہے گی

سید محمد عبد الغفور شہباز

;

نہ اپنا باقی یہ تن رہے گا نہ تن میں تاب و تواں رہے گی
اگر جدائی میں جاں رہے گی تمہیں بتاؤ کہاں رہے گی

مژہ کے تیروں سے چھان دل کو جو چھاننی ہو نگہ کو گہری
کھنچی ہوئی دل سے کب تلک یوں تری بھنؤں کی کماں رہے گی

خدا نے منہ میں زبان دی ہے تو شکر یہ ہے کہ منہ سے بولو
کہ کچھ دنوں میں نہ منہ رہے گا نہ منہ میں چلتی زباں رہے گی

بہار کے تخت و تاج پر بھی گلوں کو روتے ہی ہم نے دیکھا
کہ گاڑ کر خار و خس کا جھنڈا چمن میں اک دن خزاں رہے گی

دکھائے گا اپنا جب وہ قامت مچے گی یاں طرفہ اک قیامت
نہ واعظوں میں یہ ذکر ہوگا نہ مسجدوں میں اذاں رہے گی

بجے گا کوچوں میں یونہی گھنٹہ اذاں یونہی ہوگی مسجدوں میں
نہ جب تلک ان کو تو ملے گا تمام آہ و فغاں رہے گی

نہ دیں گے جب تک نگہ کو دل ہم قرار حاصل نہ ہوگا دل کو
کبھی نہ ہم سانس لے سکیں گے اڑی ہوئی اک سناں رہے گی

زباں پہ شہبازؔ کی ہیں جاری مدام شیریں لبوں کی باتیں
خدا نے چاہا تو نوک خامہ ہمیشہ رطب اللساں رہے گی