نہ آیا ہمیں عشق کرنا نہ آیا
مرے عمر بھر اور مرنا نہ آیا
یہ دل کی تڑپ کیا لحد کو ہلاتی
تمہیں قبر پر پاؤں دھرنا نہ آیا
نمکداں کئے تم نے گو لاکھ خالی
نمک تم کو زخموں میں بھرنا نہ آیا
یہی دن تھے سو سو طرح تم سنورتے
جوانی تو آئی سنورنا نہ آیا
دباتا تھا کافر حسینوں کا جوبن
مرے داغ دل کو ابھرنا نہ آیا
تری تیغ کیا کیا نہائی لہو میں
تری طرح لیکن نکھرنا نہ آیا
سنا کر وہ کہتے ہیں کس بھولے پن سے
ہمیں وعدہ کر کے مکرنا نہ آیا
بنے پنکھڑی نقش پا کب لحد پر
تجھے اے صبا گل کترنا نہ آیا
ریاضؔ اپنی قسمت کو اب کیا کہوں میں
بگڑنا تو آیا سنورنا نہ آیا
غزل
نہ آیا ہمیں عشق کرنا نہ آیا
ریاضؔ خیرآبادی