EN हिंदी
نہ آتی تھی کہیں دل میں نظر آگ | شیح شیری
na aati thi kahin dil mein nazar aag

غزل

نہ آتی تھی کہیں دل میں نظر آگ

محمد یوسف راسخ

;

نہ آتی تھی کہیں دل میں نظر آگ
مگر پھر بھی جلی ہے رات بھر آگ

کھلا ہے دل میں اک داغوں کا گلشن
اگلتا ہے مرا زخم جگر آگ

بلایا تھا مجھے بزم طرب میں
لگا دی دل میں کیوں منہ پھیر کر آگ

دکھایا طور پر موسیٰ کو جلوہ
کہاں جا کر بنی ہے راہبر آگ

یہ گریہ اور پھر آہ شرربار
ترقی پر ادھر پانی ادھر آگ

وہ میرا دل جلانا کھیل سمجھے
کرے گی رفتہ رفتہ یہ اثر آگ

شب غم اس قدر رویا ہے کوئی
کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتی سحر آگ

وہ دل پر ہاتھ رکھ کر گئے ہیں
کہ اب جلنے نہ پائے رات بھر آگ

زمانہ کو جلاتا ہے وہ ظالم
نہ بن جائیں کہیں شمس و قمر آگ

یہ کس کی سرد مہری کا اثر تھا
نہ دیکھی طور پر بھی جلوہ گر آگ

کروں کیا آہ سوزاں ہجر کی شب
فرشتوں کے جلا دیتی ہے پر آگ

یہ دشمن کا مکان اپنا ہی گھر ہے
لگا دیں آپ بے خوف و خطر آگ

دل سوزاں یہ کہہ دے چشم تر سے
خدا کے واسطے ٹھنڈی نہ کر آگ

حسد کی آگ میں جلتا ہے اب تک
برستی ہے عدو کی قبر پر آگ

وضو ہو جائیں گے زاہد کے ٹھنڈے
بجھا دے گی کسی کی چشم تر آگ

دل ناداں کو ہم سمجھا چکے تھے
محبت آگ ہے اے بے خبر آگ

سنا مضموں جواب خط کا راسخؔ
اٹھا لایا کہیں سے نامہ بر آگ