EN हिंदी
نہ آنکھیں ہی جھپکتا ہے نہ کوئی بات کرتا ہے | شیح شیری
na aankhen hi jhapakta hai na koi baat karta hai

غزل

نہ آنکھیں ہی جھپکتا ہے نہ کوئی بات کرتا ہے

وزیر آغا

;

نہ آنکھیں ہی جھپکتا ہے نہ کوئی بات کرتا ہے
بس اک آنسو کے دانے پر بسر اوقات کرتا ہے

شجر کے تن میں گہرا زخم ہے کوئی وگرنہ یوں
زمیں پر سبز پتوں کی کوئی برسات کرتا ہے

وہ جب چاہے بجھا دیتا ہے شمعیں بھی ستارے بھی
نگر سارا سپرد پنجۂ ظلمات کرتا ہے

وہ اپنی بات سے صدچاک کرتا ہے مرا سینہ
پھر اپنی بات کی تا دیر تاویلات کرتا ہے

وہ اپنی عمر کو پہلے پرو لیتا ہے ڈوری میں
پھر اس کے بعد گنتی عمر کی دن رات کرتا ہے