مضطرب ہیں وقت کے ذرات سورج سے کہو
آ گئی کیوں آگ کی برسات سورج سے کہو
ہم ہیں اور شعلوں کی لپٹیں بڑھ رہی ہیں ہر طرف
کیا ہوئی وہ چھاؤں کی اک بات سورج سے کہو
ناچتے ہیں یہ بھیانک سائے آخر کس لیے
زیر لب کیا کہہ رہی ہے رات سورج سے کہو
ایک تپتا دشت ہے اور ساتھ کوئی بھی نہیں
کس سفر میں ہے اکیلی ذات سورج سے کہو
رینگتے ہیں ناگ اندیشوں کے سانسوں میں یہاں
ڈھلنے میں آتی نہیں ہے رات سورج سے کہو
زعم ہونے کا رہا اک عمر ہم کو اور آج
جل گئے سب دھوپ میں جذبات سورج سے کہو
غزل
مضطرب ہیں وقت کے ذرات سورج سے کہو
احمد ہمدانی