EN हिंदी
مضطرب عاشق بے جاں نہ ہوا تھا سو ہوا | شیح شیری
muztarib aashiq-e-be-jaan na hua tha so hua

غزل

مضطرب عاشق بے جاں نہ ہوا تھا سو ہوا

منیرؔ  شکوہ آبادی

;

مضطرب عاشق بے جاں نہ ہوا تھا سو ہوا
مرغ تصویر پرافشاں نہ ہوا تھا سو ہوا

شکر ہے جامہ سے باہر وہ ہوا غصہ میں
جو کہ پردے میں بھی عریاں نہ ہوا تھا سو ہوا

عشق رخسار کتابی نے بڑھائی عزت
جزو دل پارۂ قرآں نہ ہوا تھا سو ہوا

جلوہ یاقوت کی بجلی کا ہوا بالوں میں
شب گیسو میں چراغاں نہ ہوا تھا سو ہوا

داغ پنہاں ترے آنے سے ہوا افسردہ
گل چراغ تہ داماں نہ ہوا تھا سو ہوا

الفت اس عارض سمیں کی گلو گیر ہوئی
نقرئی طوق گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا

لے گیا کون عقیق لب جاں بخش کی آب
خشک لب چشمۂ حیواں نہ ہوا تھا سو ہوا

دشت وحشت میں بہا خون کف پا کوسوں
سرخ دامان بیاباں نہ ہوا تھا سو ہوا

اپنی آتش قدمی بھی ہے طلسم تازہ
بیضہ‌ٔ آبلہ بریاں نہ ہوا تھا سو ہوا

آپ نے مست کیا خون جوانان چمن
زر گل گنج شہیداں نہ ہوا تھا سو ہوا

حکم والا سے منیرؔ ابر طبیعت اپنا
اس غزل میں گہر افشاں نہ ہوا تھا سو ہوا