مضمحل قدموں پہ بار
گردش لیل و نہار
دل ہے کوئے یار میں
سر چلا ہے سوئے دار
گنبد بے در کی گونج
بند ہونٹوں کی پکار
ڈھانپ لو خالی شکم
ہو چکے فاقے شمار
کھا گئی دہقان کو
سبز کھیتوں کی قطار
مدفن محنت کشاں
کارخانوں کے مزار
منزلیں ہیں بے نشاں
راستے گرد و غبار
تن بہت دھویا ربابؔ
میل من کا بھی اتار
غزل
مضمحل قدموں پہ بار
ظفر رباب