مٹھیوں میں ریت بھر لی ہے بتاؤں کس طرح
رات دن آب رواں سے منہ چھپاؤں کس طرح
رقص کرتے ہیں بگولے میرے تیرے درمیاں
ریت پر دریاؤں کا نقشہ بناؤں کس طرح
وہ ادھر اس پار کے منظر بلاتے ہیں مجھے
روشنی کے شہر سے پیچھا چھڑاؤں کس طرح
یاد سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نظر آتا نہیں
پتلیوں میں تیرے چہرے کو چھپاؤں کس طرح
جب یہاں اس شہر میں سب کچھ خزاں آثار ہے
بے در و دیوار کا اک گھر بناؤں کس طرح
غزل
مٹھیوں میں ریت بھر لی ہے بتاؤں کس طرح
مہتاب حیدر نقوی

