مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں لاکھوں کی تقدیریں ہیں
جدا جدا ہیں دھرم علاقے ایک سی لیکن زنجیریں ہیں
آج اور کل کی بات نہیں ہے صدیوں کی تاریخ یہی ہے
ہر آنگن میں خواب ہیں لیکن چند گھروں میں تعبیریں ہیں
جب بھی کوئی تخت سجا ہے میرا تیرا خون بہا ہے
درباروں کی شان و شوکت میدانوں کی شمشیریں ہیں
ہر جنگل کی ایک کہانی وہ ہی بھینٹ وہی قربانی
گونگی بہری ساری بھیڑیں چرواہوں کی جاگیریں ہیں
غزل
مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں لاکھوں کی تقدیریں ہیں
ندا فاضلی