مطالعہ کی ہوس ہے کتاب دے جاؤ
ہمارے عہد کو صالح نصاب دے جاؤ
شہیر علم کی جھولی کمال سے خالی
خدا کے واسطے کوئی خطاب دے جاؤ
کبھی تو حرمت سیرابئ نظر کھل جائے
سمندروں کو طلسم سراب دے جاؤ
حقیقتوں کو تماشا نہیں بناؤں گا
منافقت کی ہوا ہے نقاب دے جاؤ
تمہاری آخری امید بن کے لوٹوں گا
وداع کی گھڑیوں کا حساب دے جاؤ
قدیم روشنیوں سے انہیں شکایت ہے
تو شپروں کو نیا آفتاب دے جاؤ
کوئی تو مشغلہ نامراد جاری ہو
زباں کو بدرقۂ انقلاب دے جاؤ
اسی میں خندہ لبی شان بے نیازی ہے
ہر ایک تیر کا ساکت جواب دے جاؤ
سفر نصیب ہے راہیؔ مثال باد رواں
جہات شش کی زمام و رکاب دے جاؤ
غزل
مطالعہ کی ہوس ہے کتاب دے جاؤ
راہی فدائی