مستقل ہاتھ ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
میں نئے دوست بناتے ہوئے تھک جاتا ہوں
ابر آوارہ ہوں میں کوئی سمندر تو نہیں
پیاس صحرا کی بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
مالک کون و مکاں اب تو رہائی دے دے
جسم کا بوجھ اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
تو مرے راز بتاتے ہوئے تھکتا ہی نہیں
میں ترے راز چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
میرے قدموں سے لپٹ جاتی ہے ماں کی ممتا
میں کہیں گاؤں سے جاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
جانے کب جا کے مرا عشق مکمل ہوگا
رقص کرتے ہوئے گاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
غزل
مستقل ہاتھ ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
ہاشم رضا جلالپوری