EN हिंदी
مستقل درد کا سیلاب کہاں اچھا ہے | شیح شیری
mustaqil dard ka sailab kahan achchha hai

غزل

مستقل درد کا سیلاب کہاں اچھا ہے

سورج نرائن مہر

;

مستقل درد کا سیلاب کہاں اچھا ہے
وقفۂ سلسلۂ آہ و فغاں اچھا ہے

ہو نہ جائے مرے لہجے کا اثر زہریلا
ان دنوں منہ سے نکل جائے زباں اچھا ہے

مجھ سے مانگے گی مری آنکھ گلابی منظر
ہو مرے ہاتھ میں تصویر بتاں اچھا ہے

جن کے سینے میں تعصب نہیں پلتا کوئی
ایسے لوگوں کے لیے سارا جہاں اچھا ہے

کتنے چالاک ہیں یہ اونچی حویلی والے
ہم سے کہتے ہیں کہ مٹی کا مکاں اچھا ہے

زیر لب رینگتا رہتا ہے تبسم سورجؔ
اس قیامت سے تو آہوں کا دھواں رہتا ہے