مسکرانے کا یہی انجام ہے
سب کے ہونٹوں پر ترا ہی نام ہے
تھی کشش کی آپ میں ہی کچھ کمی
غیر پہ کیوں بے وجہ الزام ہے
خط کا مضموں ہے مرے ہی واسطے
گو لفافے پر کسی کا نام ہے
خواب میں بھی یہ سفر جاری رہے
زندگی آوارگی کا نام ہے
لوگ کیوں کھل کے کبھی ملتے نہیں
اس شہر میں ہر کوئی بد نام ہے
رتبے داری کی لگی اک ہوڑ ہے
قابلیت بس برائے نام ہے
مے کدے سے دور ہی رہتا ہوں میں
تشنگی ہی بس مرا انعام ہے
جام، ہو محفل، نہ ہو ساقی کوئی
ہم کو اپنی بے خودی سے کام ہے

غزل
مسکرانے کا یہی انجام ہے
جتیندر ویر یخمی جے ویرؔ