EN हिंदी
مسکرانے کا یہی انجام ہے | شیح شیری
muskurane ka yahi anjam hai

غزل

مسکرانے کا یہی انجام ہے

جتیندر ویر یخمی جے ویرؔ

;

مسکرانے کا یہی انجام ہے
سب کے ہونٹوں پر ترا ہی نام ہے

تھی کشش کی آپ میں ہی کچھ کمی
غیر پہ کیوں بے وجہ الزام ہے

خط کا مضموں ہے مرے ہی واسطے
گو لفافے پر کسی کا نام ہے

خواب میں بھی یہ سفر جاری رہے
زندگی آوارگی کا نام ہے

لوگ کیوں کھل کے کبھی ملتے نہیں
اس شہر میں ہر کوئی بد نام ہے

رتبے داری کی لگی اک ہوڑ ہے
قابلیت بس برائے نام ہے

مے کدے سے دور ہی رہتا ہوں میں
تشنگی ہی بس مرا انعام ہے

جام، ہو محفل، نہ ہو ساقی کوئی
ہم کو اپنی بے خودی سے کام ہے