مسکرا دو گے تو یہ رات سنور جائے گی
ہنس جو دو گے تو فضا اور نکھر جائے گی
اپنی منزل پہ پہنچ جائے گی بیتاب نظر
اپنے مرکز پہ نہ پہنچی تو کدھر جائے گی
کاش اس حسن خود آرا سے کوئی جا کے کہے
زلف کو لاکھ سنوارے یہ بکھر جائے گی
منتظر شام سے ان کا ہوں مگر جانتا ہوں
آج کی رات بھی آنکھوں میں گزر جائے گی
آپ بھی زلف پریشاں کو ہٹا لیں رخ سے
میرے چھونے سے تو ناگن یہ بپھر جائے گی
حال دل کیوں نہ حزیںؔ آج گلوں سے کہہ دوں
نکہت گل بھی مرے دوست کے گھر جائے گی

غزل
مسکرا دو گے تو یہ رات سنور جائے گی
ہنس راج سچدیو حزیںؔ