مشتاق بدستور زمانہ ہے تمہارا
آنے سے بڑا کھیل نہ آنا ہے تمہارا
لیلیٰ کی حکایت بھی حکایت ہے تمہاری
شیریں کا فسانہ بھی فسانہ ہے تمہارا
اس دل کی خبر تم سے زیادہ کسے ہوگی
برتاؤ مگر بے خبرانہ ہے تمہارا
تم حسن مجسم ہو بلا شرکت غیرے
ناقابل تقسیم خزانہ ہے تمہارا
دل میں کوئی آ جائے تو واپس نہیں جاتا
دشوار یہاں سے کہیں جانا ہے تمہارا
تم سے متائثر ہیں نئے ہوں کہ پرانے
اسلوب نیا ہے کہ پرانا ہے تمہارا
کیوں روشنی و رنگ سے معمور نہ ہو دل
سنسان سہی آئنہ خانہ ہے تمہارا
سمجھایا بجھایا نہ کرو دل کو شعورؔ اب
کم بخت نے کہنا کبھی مانا ہے تمہارا
غزل
مشتاق بدستور زمانہ ہے تمہارا
انور شعور