مسلسل اشک باری کر رہا تھا
میں اپنی آبیاری کر رہا تھا
مجھے وہ خواب پھر سے دیکھنا تھا
میں خود پہ نیند طاری کر رہا تھا
کئی دن تک تھا میری دسترس میں
میں اب دریا کو جاری کر رہا تھا
مجھے رک رک کے پنچھی دیکھتے تھے
میں پتھر پر سواری کر رہا تھا
گزرنا تھا بہت مشکل ادھر سے
دریچہ چاند ماری کر رہا تھا
کوئی ایٹم تھا میرے جسم و جاں میں
میں جس کی تاب کاری کر رہا تھا
سفینے سب کے سب غرقاب کر کے
سمندر آہ و زاری کر رہا تھا
مجھے فطرت بھی گھستی جا رہی تھی
میں خود بھی ریگ ماری کر رہا تھا
میری ڈیوٹی تھی خیموں کی حفاظت
مگر میں آب داری کر رہا تھا
ستارے ٹمٹمانا رک گئے تھے
میں پھر اختر شماری کر رہا تھا
مجھے بھڑنا تھا کس وحشی سے لیکن
میں کس پاگل سے یاری کر رہا تھا
بہت سے کام کرنے تھے لیاقتؔ
جنہیں میں باری باری کر رہا تھا
غزل
مسلسل اشک باری کر رہا تھا
لیاقت جعفری