EN हिंदी
مصاحبت کا کوئی سلسلہ نہیں ہے کیا | شیح شیری
musahibat ka koi silsila nahin hai kya

غزل

مصاحبت کا کوئی سلسلہ نہیں ہے کیا

راشد انور راشد

;

مصاحبت کا کوئی سلسلہ نہیں ہے کیا
کسی بھی شخص سے اب رابطہ نہیں ہے کیا

ہزار لوگوں سے پوچھا سبھی ہیں ناواقف
یہاں بھی تجھ کو کوئی جانتا نہیں ہے کیا

تمام رشتے فراموش کر دیے تو نے
تعلقات سے اب فائدہ نہیں ہے کیا

امیر شہر سے ہے مصلحت بجا لیکن
ہے بات سچ تو کہو حوصلہ نہیں ہے کیا

زبان میں نے جو کھولی تو سب ہیں ششدر کیوں
ترے خلاف کوئی بولتا نہیں ہے کیا

معاملات میں سب طاق پر رکھیں گے اصول
خدا کے بندے تجھے کچھ پتہ نہیں ہے کیا