مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں
سفر نیا ہے مگر کشتیاں پرانی ہیں
یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پرانی ہیں
ہم اس لیے بھی نئے ہم سفر تلاش کریں
ہمارے ہاتھ میں بیساکھیاں پرانی ہیں
عجیب سوچ ہے اس شہر کے مکینوں کی
مکاں نئے ہیں مگر کھڑکیاں پرانی ہیں
پلٹ کے گاؤں میں میں اس لیے نہیں آیا
مرے بدن پہ ابھی دھجیاں پرانی ہیں
سفر پسند طبیعت کو خوف صحرا کیا
صباؔ ہوا کی وہی سیٹیاں پرانی ہیں
غزل
مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں
سبط علی صبا