EN हिंदी
مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں | شیح شیری
musafiron mein abhi talKHiyan purani hain

غزل

مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں

سبط علی صبا

;

مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں
سفر نیا ہے مگر کشتیاں پرانی ہیں

یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پرانی ہیں

ہم اس لیے بھی نئے ہم سفر تلاش کریں
ہمارے ہاتھ میں بیساکھیاں پرانی ہیں

عجیب سوچ ہے اس شہر کے مکینوں کی
مکاں نئے ہیں مگر کھڑکیاں پرانی ہیں

پلٹ کے گاؤں میں میں اس لیے نہیں آیا
مرے بدن پہ ابھی دھجیاں پرانی ہیں

سفر پسند طبیعت کو خوف صحرا کیا
صباؔ ہوا کی وہی سیٹیاں پرانی ہیں