مسافروں کے لئے سازگار تھوڑی ہے
شجر ببول کا ہے سایہ دار تھوڑی ہے
یہ کھینچ تان تو حصہ ہے دوستی کا میاں
تعلقات میں لیکن درار تھوڑی ہے
اسے بھی ضد ہے کہ شادی کرے گی تو مجھ سے
جنون میرے ہی سر پہ سوار تھوڑی ہے
کبھی کبھار سہی ملنے آ تو سکتے ہو
مرا مکان سمندر کے پار تھوڑی ہے
مرے خیال مری زندگی کا حصہ ہیں
مری غزل پہ کسی کا ادھار تھوڑی ہے
مشاعرے میں غزل بھی نہ پڑھ سکوں جا کر
بخار ہے مجھے اتنا بخار تھوڑی ہے

غزل
مسافروں کے لئے سازگار تھوڑی ہے
وکاس شرما راز