مرجھائے ہوئے پھر گل تر دیکھ رہی ہوں
ناقدرئ ارباب ہنر دیکھ رہی ہوں
پھر چشم تغافل سے تری حشر بپا ہے
میں گردش دوراں کی نظر دیکھ رہی ہوں
مژگاں پہ لرزتے ہوئے اشکوں کے دیے ہیں
وابستۂ جاں برق و شرر دیکھ رہی ہوں
کیا حسن بصارت میں بصیرت کی کمی ہے
کچھ اہل نظر چاک جگر دیکھ رہی ہوں
پندار وفا تمکنت ہوش خبردار
افلاک پہ دھرتی کے قمر دیکھ رہی ہوں
اب تک یہ روایات کہن جاگ رہی ہیں
کچھ لعل و گہر خاک بسر دیکھ رہی ہوں
کچھ تیری نگاہوں نے دکھایا ہے تماشہ
کچھ طرفہ زمانہ کا اثر دیکھ رہی ہوں
تسخیر مہ و مہر کے با وصف عزیزؔ آج
اجڑے ہوئے خاموش نگر دیکھ رہی ہوں
غزل
مرجھائے ہوئے پھر گل تر دیکھ رہی ہوں
عزیز بدایونی