EN हिंदी
مرغ جاں کو زلف پیچاں جال ہے | شیح شیری
murgh-e-jaan ko zulf-e-pechan jal hai

غزل

مرغ جاں کو زلف پیچاں جال ہے

کشن کمار وقار

;

مرغ جاں کو زلف پیچاں جال ہے
جال کیا اے جان جاں جنجال ہے

آؤ حاضر سر پئے پامال ہے
جان لب پر بہر استقبال ہے

خاک ہو سرسبز تخم عاشقی
ہے زمیں آس آسمان غربال ہے

حسن یوسف کا بکا بازار میں
عشق کا راعیل کے اقبال ہے

جو مرے لب پر ہوا حسرت کا خون
وہ بخار شوق کا تبخال ہے

بولتا ہے آج کل طوطی مرا
غیر کی گلتی وہاں کب دال ہے

فوج خط آتی ہے اے سلطان حسن
ملک رخ سے تیرا استیصال ہے

ہے نکلتی بات ان کی بات سے
چال وہ چلتے ہیں جس میں جال ہے

کیا لکھوں وصف اچھی صورت کا وقارؔ
جنس ناقص کے لئے دلال ہے