مروتوں پہ وفا کا گماں بھی رکھتا تھا
وہ آدمی تھا غلط فہمیاں بھی رکھتا تھا
بہت دنوں میں یہ بادل ادھر سے گزرا ہے
مرا مکان کبھی سائباں بھی رکھتا تھا
عجیب شخص تھا بچتا بھی تھا حوادث سے
پھر اپنے جسم پہ الزام جاں بھی رکھتا تھا
ڈبو دیا ہے تو اب اس کا کیا گلہ کیجے
یہی بہاؤ سفینے رواں بھی رکھتا تھا
تو یہ نہ دیکھ کہ سب ٹہنیاں سلامت ہیں
کہ یہ درخت تھا اور پتیاں بھی رکھتا تھا
ہر ایک ذرہ تھا گردش میں آسماں کی طرح
میں اپنا پاؤں زمیں پر جہاں بھی رکھتا تھا
لپٹ بھی جاتا تھا اکثر وہ میرے سینے سے
اور ایک فاصلہ سا درمیاں بھی رکھتا تھا
غزل
مروتوں پہ وفا کا گماں بھی رکھتا تھا
عرفانؔ صدیقی