مقدس پتھروں پر مدعا روشن نہ ہونے کا
کہاں سر پھوڑیے اب معجزہ روشن نہ ہونے کا
بھٹکتا پھر رہا ہوں نفس کے اندھے جزیرے میں
سنا ہے اپنے حصے کا خدا روشن نہ ہونے کا
سرایت کر گئیں ایمان کی خوش فہمیاں خوں میں
درون قلب کوئی وسوسہ روشن نہ ہونے کا
مرے تلووں پہ مسند ہو گئے کانٹے بیاباں کے
دل وحشت زدہ میں آبلہ روشن نہ ہونے کا
میں اس کی پہلی بارش بن کے پی جاؤں گا چپکے سے
نہیں تو اس زمیں کا ذائقہ روشن نہ ہونے کا
غزل
مقدس پتھروں پر مدعا روشن نہ ہونے کا
خورشید اکبر

