EN हिंदी
مقدس پتھروں پر مدعا روشن نہ ہونے کا | شیح شیری
muqaddas pattharon par muddaa raushan na hone ka

غزل

مقدس پتھروں پر مدعا روشن نہ ہونے کا

خورشید اکبر

;

مقدس پتھروں پر مدعا روشن نہ ہونے کا
کہاں سر پھوڑیے اب معجزہ روشن نہ ہونے کا

بھٹکتا پھر رہا ہوں نفس کے اندھے جزیرے میں
سنا ہے اپنے حصے کا خدا روشن نہ ہونے کا

سرایت کر گئیں ایمان کی خوش فہمیاں خوں میں
درون قلب کوئی وسوسہ روشن نہ ہونے کا

مرے تلووں پہ مسند ہو گئے کانٹے بیاباں کے
دل وحشت زدہ میں آبلہ روشن نہ ہونے کا

میں اس کی پہلی بارش بن کے پی جاؤں گا چپکے سے
نہیں تو اس زمیں کا ذائقہ روشن نہ ہونے کا