مقدر میں ساحل کہاں ہے میاں
مری ناؤ بے بادباں ہے میاں
جو برق تپاں سے منور رہے
وہی آشیاں آشیاں ہے میاں
کہاں جائیے مے کدہ چھوڑ کر
یہی ایک جائے اماں ہے میاں
ابد تک مکمل نہ ہو پائے گی
شب غم کی یہ داستاں ہے میاں
کہاں پاؤں رکھوں پریشان ہوں
زمیں صورت آسماں ہے میاں
مقدس سہی کاروبار وفا
مگر اس میں نقصان جاں ہے میاں
عجب پھیکی پھیکی سی ہے چاندنی
اداس آج کیوں چندرماں ہے میاں
جہاں دل کے بدلے میں ملتا ہے دل
وہ دنیا نہ جانے کہاں ہے میاں
نہیں مجھ سے عابدؔ وہ کچھ خاص دور
فقط زندگی درمیاں ہے میاں
غزل
مقدر میں ساحل کہاں ہے میاں
عابد مناوری