منتظر اس کے دلا تا بہ کجا بیٹھنا
شام ہوئی اب چلو صبح پھر آ بیٹھنا
ہوش رہا نے قرار دین رہا اور نہ دل رہا
پاس بتوں کے ہمیں خوب نہ تھا بیٹھنا
لطف سے اے دل تجھے اس کے جو ابرو بٹھائے
بیٹھیو لیکن بہت پاس نہ جا بیٹھنا
دل کی ہماری غرض باندھے ہے کیا بند بند
شوخ کا وہ کھول کر بند قبا بیٹھنا
کوچے میں اس شوخ کے جاتے تو ہو اے نظیر
جل میں کہیں اپنی چاہ تم نہ جتا بیٹھنا
غزل
منتظر اس کے دلا تا بہ کجا بیٹھنا
نظیر اکبرآبادی