منتظر رہنا بھی کیا چاہت کا خمیازہ نہیں
کان دستک پر لگے ہیں گھر کا دروازہ نہیں
ہاتھ پر تو نے مقدر کی لکیریں کھینچ دیں
کیا تجھے بھی میرے مستقبل کا اندازہ نہیں
دیکھنا چاہوں تو خوشبو، چھونا چاہوں تو ہوا
میرے دامن تک جو آئے تو وہ شیرازہ نہیں
دفن ہوں احساس کی صدیوں پرانی قبر میں
زندگی اک زخم ہے اور زخم بھی تازہ نہیں
تم ہی اے خاموشیو پتھر اٹھا لو ہاتھ میں
کوئی نغمہ کوئی نالہ کوئی آوازہ نہیں
حسن پہچانے گی میرا دیکھنے والی نظر
خوں تو ہے آنکھوں میں چہرے پر اگر غازہ نہیں
مانگتے ہیں کیوں مظفرؔ لوگ بارش کی دعا
تشنگیٔ روح کا جسموں کو اندازہ نہیں

غزل
منتظر رہنا بھی کیا چاہت کا خمیازہ نہیں
مظفر وارثی