منتظر دشت دل و جاں ہے کہ آہو آئے
سارے منظر ہی بدل جائیں اگر تو آئے
نیند آئے تو اچانک تری آہٹ سن لوں
جاگ اٹھوں تو بدن سے تری خوشبو آئے
بے ہنر ہاتھ چمکنے لگا سورج کی طرح
آج ہم کس سے ملے آج کسے چھو آئے
صوت ہی صوت ہے تصویر ہی تصویر ہے تو
یاد تیری کئی باتیں کئی پہلو آئے
ہم تجھے دیکھتے ہی نقش بہ دیوار ہوئے
اب وہی تجھ سے ملے گا جسے جادو آئے
اپنے ہی عکس کو پانی میں کہاں تک دیکھوں
ہجر کی شام ہے کوئی تو لب جو آئے
کسی جانب نظر آتا نہیں بادل کوئی
اور جب سیل بلا آئے تو ہر سو آئے
چاہتا ہوں کہ ہو پرواز ستاروں سے بلند
اور مرے حصے میں ٹوٹے ہوئے بازو آئے
درد میں ڈوبی ہوئی راکھ میں نہلائی ہوئی
رات یوں آئی ہے جیسے کوئی سادھو آئے
راستہ روک سکی ہیں نہ فصیلیں نہ حصار
پھول جنگل میں کھلے شہر میں خوشبو آئے
آسمانوں پہ نہ تارے ہیں نہ بادل ہے نہ چاند
اب تو ممکن ہے کہیں سے کوئی جگنو آئے
وقت رخصت مرے ہم راہ کوئی کب آیا
اور اگر لوٹ کے آئے بھی تو آنسو آئے
روگ بھی تو نے لگایا ہے انوکھا شہزادؔ
اب کہاں سے ترے اس درد کا دارو آئے
غزل
منتظر دشت دل و جاں ہے کہ آہو آئے
شہزاد احمد