EN हिंदी
منتشر ہو کر رہے یہ ایسا شیرازہ نہ تھا | شیح شیری
muntashir ho kar rahe ye aisa shiraaza na tha

غزل

منتشر ہو کر رہے یہ ایسا شیرازہ نہ تھا

گلزار وفا چودھری

;

منتشر ہو کر رہے یہ ایسا شیرازہ نہ تھا
خاک ہو جانا مرے ہونے کا خمیازہ نہ تھا

میں بطون ذات میں اور تو خلا میں گم رہا
خاک کے جوہر کا ہم دونوں کو اندازہ نہ تھا

آب پاشی سے رہے غافل شجرکاری کے بعد
اب جو دیکھا ایک پودا بھی تر و تازہ نہ تھا

ہم میں جو آزاد تھا آزاد تر ہو کر رہا
اب وہی بے گھر ہے جس کے گھر کا دروازہ نہ تھا

جبر کے احساس کی آواز تو پہلے بھی تھی
انقلاب قسمت آدم کا آوازہ نہ تھا