منتشر ہو کر رہے یہ ایسا شیرازہ نہ تھا
خاک ہو جانا مرے ہونے کا خمیازہ نہ تھا
میں بطون ذات میں اور تو خلا میں گم رہا
خاک کے جوہر کا ہم دونوں کو اندازہ نہ تھا
آب پاشی سے رہے غافل شجرکاری کے بعد
اب جو دیکھا ایک پودا بھی تر و تازہ نہ تھا
ہم میں جو آزاد تھا آزاد تر ہو کر رہا
اب وہی بے گھر ہے جس کے گھر کا دروازہ نہ تھا
جبر کے احساس کی آواز تو پہلے بھی تھی
انقلاب قسمت آدم کا آوازہ نہ تھا

غزل
منتشر ہو کر رہے یہ ایسا شیرازہ نہ تھا
گلزار وفا چودھری