منحرف مجھ سے اک زمانہ ہے
بدنصیبی کا کیا ٹھکانہ ہے
بہکی جاتی ہے چشم زاہد بھی
ہر ادا تیری والہانہ ہے
کیوں جبیں اب ہے مائل سجدہ
کیا یہیں ان کا آستانہ ہے
ظرف میکش کو تاڑ لیتی ہے
چشم ساقی کا کیا ٹھکانا ہے
والیان چمن نہیں واقف
برق آسا ہر آشیانہ ہے
اب تو رسوائیاں یقینی ہیں
ان کے لب پر مرا فسانہ ہے
سوئے کعبہ چلے تو ہو قیصرؔ
راہ میں اک شراب خانہ ہے
غزل
منحرف مجھ سے اک زمانہ ہے
قیصر نظامی