منہ ترا کیوں آج زور ناتوانی پھر گیا
اس کے آتے ہی مرے چہرے پہ پانی پھر گیا
بھول کر عاشق تمہارا جا رہا تھا طور پر
دور سے سن کر صدائے لن ترانی پھر گیا
ذلت و رسوائی کی حد بھی ہے کوئی ڈوب مر
اے دل ناکام اب تو سر پہ پانی پھر گیا
اس کے آگے تو نے پھیلایا اگر دست سوال
یاد رکھ اے دل سلوک مہربانی پھر گیا
دل مٹایا تیری خاطر جان کی پروا نہ کی
کس لیے تو ہم سے اے عہد جوانی پھر گیا
بے ستوں کو کاٹ کر لایا تھا ظالم جوئے شیر
کوہ کن کی حسرتوں پر پھر بھی پانی پھر گیا
پتیاں پژمردہ پھولوں کی چمن میں دیکھ کر
سامنے آنکھوں کے دور عیش فانی پھر گیا
کل کھلی تھی جو کلی ہے آج مرجھائی ہوئی
میری نظروں میں مآل زندگانی پھر گیا
بوالہوس کا منہ ہو کالا کان میں کیا کہہ دیا
آپ کے چہرے پہ رنگ ارغوانی پھر گیا
برق بن کر آج وہ محفل میں آئے اس طرح
میری آنکھوں میں مرا عہد جوانی پھر گیا
بھر کے ساقی نے دیا جام شراب ارغواں
شادؔ کے چہرے پہ رنگ شادمانی پھر گیا
غزل
منہ ترا کیوں آج زور ناتوانی پھر گیا
مرلی دھر شاد