EN हिंदी
منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا | شیح شیری
munh taka hi kare hai jis tis ka

غزل

منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا

میر تقی میر

;

منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا

شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

تھے برے مغبچوں کے تیور لیک
شیخ مے خانے سے بھلا کھسکا

داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب
ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا

بحر کم ظرف ہے بسان حباب
کاسہ لیس اب ہوا ہے تو جس کا

فیض اے ابر چشم تر سے اٹھا
آج دامن وسیع ہے اس کا

تاب کس کو جو حال میرؔ سنے
حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا