EN हिंदी
منہ دکھا کر منہ چھپانا کچھ نہیں | شیح شیری
munh dikha kar munh chhupana kuchh nahin

غزل

منہ دکھا کر منہ چھپانا کچھ نہیں

ریاضؔ خیرآبادی

;

منہ دکھا کر منہ چھپانا کچھ نہیں
کچھ نہیں یہ منہ دکھانا کچھ نہیں

تھا جو کیا کچھ بات کہتے کچھ نہ تھا
آدمی کا بھی ٹھکانا کچھ نہیں

گل ہیں معشوقوں کے دامن کے لئے
قبر عاشق پر چڑھانا کچھ نہیں

ہے ستانے کا بھی لطف اک وقت پر
ہر گھڑی ان کو ستانا کچھ نہیں

بے منائے من گئے ہم آپ سے
ایسے روٹھے کو منانا کچھ نہیں

ہاتھ سے گلچیں کے جھٹکے کون کھائے
شاخ گل پر آشیانا کچھ نہیں

یہ حسیں ہیں پیار کر لینے کی چیز
ان حسینوں کو ستانا کچھ نہیں

اے حباب اپنی ذرا ہستی تو دیکھ
اس پر اتنا سر اٹھانا کچھ نہیں

تو نے توبہ کی تو ہے لیکن ریاضؔ
بات کا تیری ٹھکانا کچھ نہیں