EN हिंदी
ملک سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا | شیح شیری
mulk-e-suKHan mein dard ki daulat ko kya hua

غزل

ملک سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا

افتخار عارف

;

ملک سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا
اے شہر میرؔ تیری روایت کو کیا ہوا

ہم تو سدا کے بندۂ زر تھے ہمارا کیا
نام آوران عہد بغاوت کو کیا ہوا

گرد و غبار کوچۂ شہرت میں آ کے دیکھ
آسودگان کنج قناعت کو کیا ہوا

گھر سے نکل کے بھی وہی تازہ ہوا کا خوف
میثاق ہجر تیری بشارت کو کیا ہوا