ملک سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا
اے شہر میرؔ تیری روایت کو کیا ہوا
ہم تو سدا کے بندۂ زر تھے ہمارا کیا
نام آوران عہد بغاوت کو کیا ہوا
گرد و غبار کوچۂ شہرت میں آ کے دیکھ
آسودگان کنج قناعت کو کیا ہوا
گھر سے نکل کے بھی وہی تازہ ہوا کا خوف
میثاق ہجر تیری بشارت کو کیا ہوا
غزل
ملک سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا
افتخار عارف