مختصر سی بات کو بھی مسئلہ کہتے رہے
زندگی میں آپ کو کیوں رہنما کہتے رہے
بے وفا ہونے کا فتویٰ دے دیا ان نے ہمیں
عمر بھر جن کے ستم کو ہم وفا کہتے رہے
کر دیا مسمار ان نے ایک پل میں قصر دل
جن کے خستہ گھر کو بھی ہم خوش نما کہتے رہے
ہر گھڑی ہر وقت ہر پل ہر جگہ بے خوف ہم
وہ ہمارے تھے ہمارے ہیں سدا کہتے رہے
دھیرے دھیرے چل دئیے اس راہ پر ہم بھی سبینؔ
رات دن سب جس کو غم کی کربلا کہتے رہے

غزل
مختصر سی بات کو بھی مسئلہ کہتے رہے
غوثیہ خان سبین