مخالفوں کے جلو میں وہ آج شامل تھا
وفا پرست رتوں کا جو شخص حاصل تھا
وہ میری ذات کی پہچان بھی تعارف بھی
مرے لہو میں بہ رنگ حیات شامل تھا
حسین رات تھی ہاتھوں میں ہاتھ تھے ہم تھے
کنار آب خموشی تھی ماہ کامل تھا
تغیرات زمانہ بھی کیا عجب شے ہیں
جو جاں نثار تھا پہلے وہ آج قاتل تھا
مجھے بھی فقر کی دولت پہ فخر تھا یارو
اسے بھی لعل و گہر کا غرور حاصل تھا
بہت ہی سادہ طبیعت تھا ان دنوں ارشدؔ
کہ جب وہ مہر و خلوص و وفا کا قائل تھا
غزل
مخالفوں کے جلو میں وہ آج شامل تھا
ارشد القادری