مخالف جب سے آئینہ ہوا ہے
مرا چہرہ ہی کچھ بدلا ہوا ہے
اسے بھولے ہوئے عرصہ ہوا ہے
یہ سچ ہے یا مجھے دھوکا ہوا ہے
کوئی کھیلا کسی نے توڑ ڈالا
یہ دل کے ساتھ بھی کیا کیا ہوا ہے
کنارے لگ گیا گستاخ تنکا
سمندر فکر میں ڈوبا ہوا ہے
سمٹنے کا بھی ہے اب ہوش کس کو
ابھی رخت سفر بکھرا ہوا ہے
تمہارے فیصلے بھی طے شدہ تھے
ہمارا جرم بھی سوچا ہوا ہے
مجھے راس آ گئی ہے اجنبیت
ہر اک رشتہ مرا پرکھا ہوا ہے
نظر پر دھول کی پرتیں جمی ہیں
تمہارا عکس بھی دھندلا ہوا ہے
چلو سالمؔ کہیں گمراہ ہو لیں
یہاں ہر راستہ بھٹکا ہوا ہے
غزل
مخالف جب سے آئینہ ہوا ہے
سالم شجاع انصاری