EN हिंदी
مجھے وہ چھوڑ کر جب سے گیا ہے انتہا ہے | شیح شیری
mujhe wo chhoD kar jab se gaya hai intiha hai

غزل

مجھے وہ چھوڑ کر جب سے گیا ہے انتہا ہے

طاہر عدیم

;

مجھے وہ چھوڑ کر جب سے گیا ہے انتہا ہے
رگ و پے میں فضائے کربلا ہے انتہا ہے

مرے حالات ہیں ناراض اس پہ کیا کروں میں
گریزاں آسمانوں سے دعا ہے انتہا ہے

غم و آلام ہیں یا حسرتیں ہیں زندگی میں
تمہارے بعد باقی کیا بچا ہے انتہا ہے

فقط تم ہی نہیں ناراض مجھ سے جان جاناں
مرے اندر کا انساں تک خفا ہے انتہا ہے

کہیں منظر اسالیب ہوس کے چار سو ہیں
کہیں پہ خون آلودہ فضا ہے انتہا ہے

خموشی توڑ دے اے خالق ارض و سما اب
تری مخلوق بن بیٹھی خدا ہے انتہا ہے

غزل جو تم پہ طاہرؔ نے لکھی تھی جان طاہرؔ
وہی تو زینت بام بقا ہے انتہا ہے