مجھے تو عشق میں اب عیش و غم برابر ہے
بہ رنگ سایہ وجود و عدم برابر ہے
نہ کچھ ہے عیش سے بالیدگی نہ غم سے گداز
ہمارے کام میں سب نوش و سم برابر ہے
چلا ہے قافلہ پر ہم سے نا توانوں کو
ہزار گام سے اب اک قدم برابر ہے
بہ چشم مردم روشن ضمیر گر پوچھو
تو قدر جام مے و جام جم برابر ہے
خزاں کے روز جو دیکھا تو عندلیبوں کو
صفیر بوم سے اب زیر و بم برابر ہے
بہت شگفتہ ہیں گلشن میں گرچہ لالہ و گل
تمہارے چہرے سے پر کوئی کم برابر ہے
یہ رند دے گئے لقمہ تجھے تو عذر نہ مان
ترا تو شیخ تنور و شکم برابر ہے
وہ مست ناز و ادا جس کو روز وعدے کے
شکست جام و شکست قسم برابر ہے
بقاؔ جو بار نہ دے ہم کو اپنی محفل میں
تو مرگ و زندگی اپنی بہم برابر ہے
غزل
مجھے تو عشق میں اب عیش و غم برابر ہے
بقا اللہ بقاؔ