EN हिंदी
مجھے تو عشق میں اب عیش و غم برابر ہے | شیح شیری
mujhe to ishq mein ab aish-o-gham barabar hai

غزل

مجھے تو عشق میں اب عیش و غم برابر ہے

بقا اللہ بقاؔ

;

مجھے تو عشق میں اب عیش و غم برابر ہے
بہ رنگ سایہ وجود و عدم برابر ہے

نہ کچھ ہے عیش سے بالیدگی نہ غم سے گداز
ہمارے کام میں سب نوش و سم برابر ہے

چلا ہے قافلہ پر ہم سے نا توانوں کو
ہزار گام سے اب اک قدم برابر ہے

بہ چشم مردم روشن ضمیر گر پوچھو
تو قدر جام مے و جام جم برابر ہے

خزاں کے روز جو دیکھا تو عندلیبوں کو
صفیر بوم سے اب زیر و بم برابر ہے

بہت شگفتہ ہیں گلشن میں گرچہ لالہ و گل
تمہارے چہرے سے پر کوئی کم برابر ہے

یہ رند دے گئے لقمہ تجھے تو عذر نہ مان
ترا تو شیخ تنور و شکم برابر ہے

وہ مست ناز و ادا جس کو روز وعدے کے
شکست جام و شکست قسم برابر ہے

بقاؔ جو بار نہ دے ہم کو اپنی محفل میں
تو مرگ و زندگی اپنی بہم برابر ہے